اردوئے معلیٰ

Search

گئی جو طفلی تو پھر عالم شباب آیا

گیا شباب تو اب موسم خضاب آیا

 

میں شوق وصل میں کیا ریل پر شتاب آیا

کہ صبح ہند میں تھا شام پنچ آب آیا

 

کٹا تھا روز مصیبت خدا خدا کر کے

یہ رات آئی کہ سر پہ مرے عذاب آیا

 

کہاں ہے دل کو عبث ڈھونڈھتے ہو پہلو میں

تمہارے کوچے میں مدت سے اس کو داب آیا

 

کسی کی تیغ‌ تغافل کا میں وہ کشتہ ہوں

نہ جاگا نیزے پہ سو بار آفتاب آیا

 

نظر پڑی نہ مری رعب حسن سے رخ پر

اگرچہ سامنے میرے وو بے نقاب آیا

 

ہمیشہ صورت انجم کھلی رہیں آنکھیں

فراق یار میں کس روز مجھ کو خواب آیا

 

ہوا یقیں کہ زمیں پر ہے آج چاند گہن

وو ماہ چہرہ پہ جب ڈال کر نقاب آیا

 

ہوئے جو دیدۂ گریہ سے اپنے اشک رواں

گماں ہوا کہ برستا ہوا سحاب آیا

 

بنا تصور لیلیٰ بہ صورت تصویر

کبھی جو قیس کی آنکھوں میں شب کو خواب آیا

 

وہ زود رنج ہے اس کو نہ چھیڑنا رعناؔ

ملو گے ہاتھ اگر بر سر عتاب آیا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ