گدائے در ہیں کرم کے طالب حضور ہم سے نبھائے رکھنا

ہمیں غلامی کے راستوں پہ کریم آقا چلائے رکھنا

بڑا سہارا ہے نام تیرا بڑے مسائل کا سامنا ہے

ہمیشہ حالات کی تپش میں سروں پہ رحمت کے سائے رکھنا

جبینِ عالم پہ سب سے پہلے مرے نبی نے یہی لکھا ہے

چراغ ظلمت کے راستوں میں محبتوں کے جلائے رکھنا

جو حاضری ہو بڑے ادب سے نظر جھکا کر لبوں کو سی کے

تم آنسوؤں کو بھی چشمِ تر میں چھپائے رکھنا چھپائے رکھنا

وہ جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جان سے بھی قریب تر ہیں

عطا کریں گے عطا کریں گے تم اپنا کاسہ بڑھائے رکھنا

شکیلؔ قُربِ نبی کی مد میں ادب کے رہبر بتا گئے ہیں

جو سر کے بل چل سکو تو بہتر وگرنہ آنکھیں بچھائے رکھنا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]