گرداب میں ہونٹوں پہ دعا دیکھ رہا ہوں

کشتی کو کنارے پہ کھڑا دیکھ رہا ہوں

اک نور میں ضم ہوتے ہیں سوچوں کے پرندے

حیرت سے عقیدت کی فضا دیکھ رہا ہوں

چَھٹ جاتے ہیں اذہان سے تفریق کے بادل

اک صَف میں وہاں شاہ و گدا دیکھ رہا ہوں

یہ باغِ مدینہ کے تصور کا ہنر ہے

پلکوں پہ جو اک پھُول کھلا دیکھ رہا ہوں

مہتاب ہوا جائے ہے یہ انکے کرم سے

جو گھر کے اندھیرے میں دِیا دیکھ رہا ہوں

ممکن ہے گزر اسکا ہو طیبہ کے چمن سے

حسرت سے میں پھر سوئے صبا دیکھ رہا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]