گرداب میں ہونٹوں پہ دعا دیکھ رہا ہوں
کشتی کو کنارے پہ کھڑا دیکھ رہا ہوں
اک نور میں ضم ہوتے ہیں سوچوں کے پرندے
حیرت سے عقیدت کی فضا دیکھ رہا ہوں
چَھٹ جاتے ہیں اذہان سے تفریق کے بادل
اک صَف میں وہاں شاہ و گدا دیکھ رہا ہوں
یہ باغِ مدینہ کے تصور کا ہنر ہے
پلکوں پہ جو اک پھُول کھلا دیکھ رہا ہوں
مہتاب ہوا جائے ہے یہ انکے کرم سے
جو گھر کے اندھیرے میں دِیا دیکھ رہا ہوں
ممکن ہے گزر اسکا ہو طیبہ کے چمن سے
حسرت سے میں پھر سوئے صبا دیکھ رہا ہوں