ہجراں میں در بدر ہوئے ہم قربتوں کے بعد

دے دی گئی زمین ہمیں جنّتوں کے بعد

چھینے گا مجھ سے اور غمِ روزگار کیا

دامن میں کیا بچا ہے بھلا حسرتوں کے بعد

ہو آئے اُس گلی میں تماشہ بنے ہوئے

فرصت ملی تھی آج بڑی مدتوں کے بعد

معمارِ ارضِ نو بھی وہی لوگ تھے جنہیں

اک مشتِ خاک بھی نہ ملی ہجرتوں کے بعد

تعمیرِ نو میں شہر کی اتنا رہے خیال

ٹوٹی فصیل بھی ہے شکستہ چھتوں کے بعد

سفّاک دن ہیں گھات میں بیٹھے ہوئے ظہیرؔ

اک حملۂ غنیم ہے اِن جگ رتوں کے بعد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]