ہر اک سے آنکھ ملاؤگے، مارے جاؤ گے

ہر اک سے آنکھ ملاؤ گے، مارے جاوٗ گے

زیادہ بوجھ اٹھاؤ گے، مارے جاوٗ گے

کوئی نہیں ہے یہاں اعتبار کے قابل

کسی کو حال سناؤ گے ،مارے جاؤ گے

ہر ایک شاخ پہ چھڑکا ہوا ہے زہر یہاں

شجر کو ہاتھ لگاؤ گے ، مارے جاوٗ گے

دھوئیں میں ملنا مقدر ہے ان لکیروں کا

ہوا میں نقش بناؤ گے مارے جاوٗ گے

یہ بدحواس فقیہوں کا شہر ہے قیصرؔ

کوئی سوال اٹھاؤ گے ،مارے جاوٗ گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]