ہر روز تازہ حادثہ جب ہو گیا کہیں

تھک ہار کر ضمیر مرا سو گیا کہیں

کھولی تھی جس میں آنکھ جوانی کے خواب نے

وہ رَت جگوں کا شہر مرا کھو گیا کہیں

کچھ دیر کو ملے تھے سر راہ احتیاج

پھر یوں ہوا کہ میں کہیں، اور وہ گیا کہیں

اُگتی ہے کشتِ ذات میں مایوسیوں کی پود

کچھ خواہشوں کے بیج کوئی بو گیا کہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]