ہر پھول کو فیضاں تری تعطیر سے پہنچا

بلبل کو ترنم تری تدویر سے پہنچا

اے افصحِ مخلوق ! سرِ عرشِ بلاغت

جبریلِ تکلم تری تقریر سے پہنچا

ہے خضر سرِ چاہِ مہِ مصر ، کہ وہ خط

تا چاہِ ذقن عارضِ تنویر سے پہنچا

ہم وقت کی افواجِ یزیدی کو مٹادیں

آلات شہا ! جذبۂِ شبّیر سے پہنچا !

ہے ذکرِ قیامت بھی ضروری پئے تخویف

ہم کو یہ سبق سورۂِ تکویر سے پہنچا

ہے لازمِ ہربزم رسالت کا بھی نعرہ

کب فیض فقط نعرۂ تکبیر سے پہنچا؟

کس صنف سے سرمایہ ادب کو مِلا ، جیسا

اردو کو تری نعت کی تاثیر سے پہنچا

اس لوحِ معارف کی ثنا لکھنے کو ، جبریل !

اَقلام مجھے خامۂ تقدیر سے پہنچا !

بس دیکھتا ہی رہ گیا طیبہ کو معظمؔ

پیرس سے گیا یا کوئی کشمیر سے پہنچا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]