اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر شوکت واسطی کا یوم وفات ہے

شوکت واسطی
(پیدائش: 1 اکتوبر 1922ء – وفات: 3 ستمبر 2009ء)
——
شوکت واسطی یکم اکتوبر 1922ء کو ملتان میں پیدا ہوئے، ۔ شوکت واسطی کا پورا نام صلاح الدین شوکت واسطی تها اور والد کا نام سید نعمت علی واسطی تھا، انہوں نے گورڈن کالج راولپنڈی سے بی اے کے بعد ایڈورڈ کالج پشاور سے تاریخ میں ماسٹر کیا اور پهر اسی شعبہ سے منسلک رہے اور ادب کی خدمت کرتے رہے. مرحوم بہت ساری کتابوں کے مصنف تهے جن میں گیت نظم طویل نظم غزل تراجم سوانح اور تاریخ کی کئی کتابیں شائع هو چکی ہیں. ان کی کلیات بھی ” کلیاتِ شوکت واسطی ” کے نام سے چار جلدوں میں چھپ چکی ھے
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز شاعر شوکت علی خاں فانی بدایونی کا یوم پیدائش
——
شوکت واسطی پر لکھا گیا ایم اے کا مقالہ ہے "شوکت واسطی – احوال و آثار” جسے ،عاصمہ کوثر نے لکھا، مقالہ کی نگران ڈاکٹر روبینہ ترین،اور بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے 2000ء میں پیش ہوا،
——
تصانیف
——
رسالت و خلافت
تاریخ پاک و ہند
جلترنگ
ذوق خامہ
کوئے بتاں
راگ کی آگ
خرام خانہ (1975ء/شاعری)
کربیہ طربیہ(ترجمہ)
کوئے مغاں (1973ء/شاعری)
نقد خیال ( غزلوں کا انتخاب)
یاد آتی ہے راہی کو (1983ء/منظوم سفرنامہ)
شیشۂ ساعت (1963ء/شاعری)
کہتا ہوں سچ(خودنوشت)
——
وفات
——
3 ستمبر 2009ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے، صباحت عاصم واسطی ان کے فرزند بھی شاعر ہیں
——
شوکت واسطی کی شاعری از صابر حسین ندوی
——
ہم نبرد آزما تھے دشمن سے
دوست نے بھی محاذ کھول دیا
——
دنیا میں اگر ایک انسان کو اس کا ہمدم مل جائے، مصیبت اور مشکل میں کسی کاندھے کا سہارا حاصل ہوجائے، سخت اور تلخ تجربات میں کوئی ہم ساز و دم ساز کا ساتھ ہوجائے اور وہ آپ کے اس سوز کو چھیڑ کر بہترین نمائندگی کر جائےتو وہ سب سے زیادہ عزیز اور دوست لگنے لگتا ہے۔ انسان آخر اس دنیا کا حیران پریشان مخلوق ہے، اللہ تعالی کا ذکر اگر نہیں تو وہ یوں سمجھیے کہ ہمہ وقت ایک ماہئ بے آب ہے۔تڑپ، جلن، تپش اور سوز کی ایسی دنیا میں وہ رہتا ہے جہاں سے دل کی دھڑکن بھی سنائی نہیں دیتی۔ دل اپنے سینے میں ہی دھک دھک کرتا ہے، جو آپ کے کان سے بَس کچھ ہی فاصلے پر ہے؛ لیکن اس کا احساس مٹ جاتا ہے، بلکہ جس شہہ رَگ کی بار بار بات کی جاتی ہے، بسااوقات وہ شہہ رَگ بھی دائرہ حس سے باہر ہوجاتی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : شوکت حیات کا کا یومِ وفات
——
آہ! زندگی کی ایسی کڑواہٹ کہ زبان کا سارا ذائقہ بگڑ جائے، اگر اسے سمندر میں ڈال دیا جائے تو سمندر کی نمکینی ختم ہوجائے اور کڑواہٹ ہی کڑواہٹ بھر جائے، پھر یہ کیا کہ انسان زمانے سے پچھڑ جائے خواہ اس کا پچھڑ جانا عمر رفتہ کی بنا پر ہو یا پھر کسی سے بچھڑ جانے اور اپنی جان و دل کے قربان ہوجانے پر ہو، انسان کے دل کا ٹکڑا اس وقت بھی تو الگ ہوجاتا ہے جب اس میں رہنے والا جدا ہوجائے، زمانہ کہیں جاپڑتا ہے، ایسا لگنے لگتا ہے کہ ہم کہیں کوسوں دور، بیابان میں تنہا ہی رہ گئے ہیں۔ اب دل کے تار چھیڑ والا کوئی نہیں، غم کے بادل میں امید کی شعاع بن کر طلوع ہونے والا کوئی نہیں، کبھی نہ کبھی انسان اس مرحلے سے ضرور گزرتا ہے۔ ایک شاعر بھی گزرا ہے، جس نے اس احساس کو زندگی میں محسوس کیا ہے، اسی لئے تو وہ کہتا ہے:
——
شوکت ہمارےساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ، ہمارا زمانہ چلا گیا
——
زندگی کی یوں نمائندگی کرنے والا شاعر کون ہے؟ اسے یہ قیمتی اثاثہ کہاں سے ملا؟ یہ جاننے کیلئے اس کی زندگی کا ایک مختصر خاکہ بھی تو جانیے! یہ شاعر جناب شوکت واسطی صاحب ہیں۔ شوکت واسطی کا پورا نام صلاح الدین شوکت واسطی تها اور والد کا نام سید نعمت علی واسطی تها۔وہ یکم اکتوبر 1922ء کو ملتان پاکستان میں پیدا هوئے اور 3/ستمبر 2009ء میں اس دارفانی سے رحلت فرما گئے۔انہوں نے گورڈن کالج راولپنڈی سے بی اے کے بعد ایڈورڈ کالج پشاور سے تاریخ میں ماسٹر کیا اور پهر اسی شعبہ سے منسلک رہے اور ادب کی خدمت کرتے رہے۔مرحوم بہت ساری کتابوں کے مصنف تهے جن میں گیت نظم طویل نظم غزل تراجم سوانح اور تاریخ کی کئی کتابیں شائع هو چکی ہیں۔ان کی کلیات بھی ” کلیاتِ شوکت واسطی ” کے نام سے چار جلدوں میں چھپ چکی ھے، واسطی صاحب دنیا اور دنیا والوں سے کس قدر نالاں تھے، اور اپنی بے بسی و بے کسی کا انہیں کس قدر احساس تھا کہ وہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے:
——
بڑے وثوق سے دُنیا فریب دیتی رہی
بڑے خلوص سے ہم اعتبار کرتے رہے
——
کیسا یہ شاعر کہ جس نے سینے پر خلوص کے زخم کھائے۔ انسان کو درد اس وقت بھی ہوتا ہے کہ جب وہ خلوص کا پیکر نہ ہو اور نیزے برداشت کرنے پڑ جائیں؛ لیکن یہ درد اس وقت دو آتشہ ہوجاتا ہے جب معلوم ہو کہ اس نے خلوص اور محبت کی سزا پائی ہے، اس نے بے دل اور بے جان لوگوں میں اپنی جان و عزیز کی قیمت چکائی ہے۔ ایسے وقت میں اس کا دل مزید روتا ہے، وہ حد سے زیادہ اپنے آپ کو کوستا ہے، اپنے خلوص پر ماتم کرتا ہے اور زبان سِل لیتا ہے، پھر حالات ایسے ہوجاتے ہیں کہ وہ بولنا نہیں چاہتا، ہونٹوں پر ہنسی نہیں آتی، دل میں بشاشت اور طبیعت میں نشان نہیں رہتی۔ وہ مرجھایا ہوا، وقت سے پہلے توڑ لیا جانے والا پھول بن جاتا ہے، اس کی خوشبو فضا میں پھیلنے سے پہلے ہی مسل دی جاتی ہے، اور اس کا وجود برائے نام رہ جاتا ہے؛ مگر اسی کے ساتھ ساتھ واسطی صاحب حوصلہ مند بھی ہیں، ان کے حوصلے کی اڑان بھی قابل دید ہے؛ کہ یہ شخص خلوص پر خنجر کھانے کے باوجود کہتا ہے کہ وہ پسپا نہیں ہوا، وہ اٹھے گا، بزم سجائے گا اور پھر لطف زندگی سے محظوظ ہوگا، چنانچہ ان کا کہنا ہے:
——
ہم زندگی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں
لیکن کسی محاذ سے پسپا نہیں ہوئے
——
یہ بھی پڑھیں : شوکت تھانوی کا یوم پیدائش
——
ایک دوسرے شعر میں اپنے حوصلہ اور بلندی کا تذکرہ یوں کرتے ہیں:
——
حوصلہ پست ہی سہی شوکتؔ
ہم ارادے بلند رکھتے ہیں
——
وہ اصل میں زمانے کے اندر رائج اصول کو سمجھ چکے ہیں، انہیں معلوم ہوچکا ہے کہ دنیا کی نیرنگی اسی میں ہے، یہ دنیا ہمیشہ سے ایسوں سے بھری رہی ہے، کوئی آئے گا، کوئی جایے گا، ہر ایک اپنا اپنا تماشہ دکھائیے گا، اور سکون کی نیند موت کی آغوش میں سو جائے گا، مگر یہ بزم تاقیامت چلتی رہے گی، ستم رسیدہ، دل جلے اور شوقین اپنی اپنی محفلیں لگاتے رہیں گے، شمعیں روشن ہوتی رہیں گی اور پروانے اپنی جان نچھاور کرتے رہیں گے، انہیں کوئی کتنا ہی سمجھا جائے، عقل کی دہائی دے، ہاتھ ہاتھ پکڑ پکڑ کر روکے؛ لیکن وہ نہ رکیں گے؛ بلکہ سبقت کریں گے اور اپنی زندگی داؤ پر لگا کر ہی دم لیں گے، اس پیراہن میں واسطی صاحب کی زبانی ایک اصولی بات سنیے!
——
وہ بزم آرائی فرماتا رہے گا
کوئی آتا کوئی جاتا رہے گا
ہماری بات رہ جائے گی شوکت
زمانہ ہم کو دہراتا رہے گا
——
اور پھر انہیں اصولوں کے تحت انہوں نے ایک حسین زندگی بسر کی تھی۔شوکت واسطی نے زندگی کا ایک اور انمول واقعہ بیان کیا ہے، وہ دراصل سینے پر لگے زخم کی تڑپ میں ایک انوکھی بات کہتے ہیں، شاید وہ ماضی پر افسوس کرتے ہیں کہ بھلا کیوں وہ راہ کھلی؟ کیسے وہ اس دن کا سورج نکلا؟ وہ شب کیونکر بیت گئی؟ وہ لمحہ کیسے آگیا؟ چنانچہ وہ مخاطب کر کے نہ صرف اپنا کھلا زخم دکھاتے ہیں بلکہ مخاطب کو طعنہ بھی مارتے ہیں، اس کے دل پر بھی ایک ضرب لگتی ہے، اگر کوئی حساس شخص ہو اور وہ اس شعر کو سنے تو یقیناً چور چور ہوجائے گا، آپ بھی پڑھیے اور انداز بیان کی داد دیجئے!
——
راه میں رہرو ملا ہی کرتے ہیں
تم ہمیں دیکھ کر گزر جاتے
——
پھر شاعر کی زندگی کا ایک باب یوں کھلتا ہے کہ ہر کوئی اس سے اپنے آپ کو کو منسلک کر سکتا ہے، بالفاظ دیگر یہ ہر کسی کے دل کی آواز ہے، شاعر نے گویا دل پر دستک دی ہے اور اس راگ کو چھیڑا ہے جو ہر کسے کے سینے میں موجود ہے، انسان کی امیدیں، آرزوئیں اور تمنائیں تو لامتناہی ہیں، وہ ہمیشہ کوشش کرتا ہے، اپنے آپ کو کھپا دیتا ہے کہ بس ایک آروز پوری ہوجائے؛ لیکن اکثر شوق زندگی کی شام ہوتے ہوتے صبح کی کرن دکھائی دیتی ہے، انسان اس وقت کیا کرے؟ کسی کا سلام تب آئے اسے سننے کی سکت نہ ہو تو بھلا کیا ہو؟
——
ہر بات زندگی میں بڑی دیر سے ہوئی
منزل پہ آ لیے تو ہمیں ہمسفر ملے
——
یہ بھی پڑھیں : شوکت تھانوی کا یوم وفات
——
اخیر میں یہ شعر تو سننے اور پڑھنے بلکہ نوشتہ دیوار بنانے کے لائق ہے؛ کہ ایک شخص کس طرح بستیاں اجاڑ کر اپنے گھر کی حفاظت، تیز و تند ہوا میں سلامتی کی خام خیالی پالتا ہے، آگ لگی ہوئی ہو اور وہ سوچے کہ سبھی جل جائیں اور اس کا آشیانہ بچ جائے، ان دنوں یہی تو حال ہے، ملک میں آگ لگی ہوئی، انسانیت جل رہی ہے، نفرت کے شیدائی گھوم رہے ہیں، مگر رفتہ رفتہ یہ آگ ان کے گھر کو پہنچ جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہائے یہ کیا ہوگیا؟ یہی انسانی زندگی کا رواج ہے، اس سے بغاوت نہیں کی جاسکتی ہے، شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
——
عجیب دوَر ہے ہر شخص یہ ہی سوچتا ہے
تمام شہر جلے، ایک میرا گھر نہ جلے
——
منتخب کلام
——
حمدِ باری تعالیٰ
——
تری ہی روحِ ازل کا پاکیزہ سلسلہ جسم تک رہا ہے
تجھی سے ہر سانس آ رہا ہے تجھی سے ہر دل دھڑک رہا ہے
تری توجہ سے موسموں کو ہُنر کی توفیق مل رہی ہے
کہ بیج میں رزق اتر رہا ہے ، ہرا بھرا کھیت پک رہا ہے
تری تجلی کے نور میں کائنات کو دیکھتی ہیں آنکھیں
ہر ایک چہرے کا عکس تیرے ہی آئینے سے جھلک رہا ہے
کہیں جو طائر چہک رہا ہے تری ہی کچھ بات ہو رہی ہے
تری ہی مہکار آ رہی ہے کہیں جو غنچہ چٹک رہا ہے
اُٹھا تھا ترے حضور دستِ دعا کا بالکل تہی پیالہ
بھری ہے یوں اوک چشمۂ فیضِ جاوداں سے ، چھلک رہا ہے
عجب نہیں ہے جو کر دے لبریز قطرہ قطرہ مرا سبوچہ
کہ تیری رحمت کا ابرِ نیساں صدف صدف میں ٹپک رہا ہے
عطا کر ( اس کو بڑی ضرورت ہے ) بادۂ معرفت کا ساغر
کہ آدمی اب شرابِ پندار کے اثر سے بہک رہا ہے
دکھا اِسے مستقیم رستہ ، اسے ہدایت نصیب فرما
شعور کے باوجود اس دور میں یہ ناداں بھٹک رہا ہے
ازل سے لاریب فیہ قائم ہے تُو ، ابد تک رہے گا قائم
خود اُس کا اپنا وجود مشکوک ہے جسے اس میں شک رہا ہے
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
——
یہ ہم لوگ ، وہ چاند تارے ترے
یہ نظریں تری ، وہ نظارے ترے
بیاباں بیاباں ترا آسرا
سمندر سمندر سہارے ترے
کل انسانیت کو ہے تجھ سے شرف
سب اخلاقِ انساں سنوارے ترے
ہمیں حق نما ہے تری ذاتِ پاک
ہیں ارکانِ دیں استعارے ترے
تری مہربانی زماں در زماں
کوئی کیسے احساں اتارے ترے
نہیں ڈر ہمیں کوئی منجدھار سے
دکھائے ہوئے ہیں کنارے ترے
یہ عاصی یہ دیندار یہ پارسا
شفاعت کے محتاج سارے ترے
ابوبکرؓ ، عثماںؓ ، عمرؓ اور علیؓ
ہمیں دل سے پیارے یہ پیارے ترے
پھرا ہے یہ شوکتؔ بہت دربدر
بس اب زندگی گھر گذارے ترے
——
جب بھی ہم منقبتِ شاہِ عرب کرتے ہیں
شرح آیاتِ مبیں لہجہ و لب کرتے ہیں
——
شوکتؔ درِ حضورِ رسالت پہ حاضری
مقدور کی نہیں مقدر کی بات ہے
——
بنتی نہ ترے گیسو و قامت کی حکایت
ہم لوگ جو ذکر رسن و دار نہ کرتے
——
کُھلتی گئی ہر ایک گرہ نفسیات کی
جوں جوں غزل میں تیرے حوالے سے بات کی
——
ساغر بہ لب بھی عالم صد کیف ساز تھا
لیکن جو لطف کیفیت لب بہ لب میں ہے
——
تھی ہوائے لب و رخسار ہمیں کچھ ایسی
جان کر شعلۂ گل بھر لیے دامن میں چراغ
——
تم نے چُھپ کر محاذ کھولا ہے
تم سے کُھل کر مقابلہ ہو گا
——
ہم عزیز اس قدر اب جی کا زیاں رکھتے ہیں
دوست بھی رکھتے ہیں تو دشمنِ جاں رکھتے ہیں
——
سنگ زن ہم پہ وہی طفل ہیں شوکتؔ جو کبھی
ہم سے لیتے تھے سبق چاک گریبانی کا
——
ہر غیر سے تو خوب گذارا کیا ، مگر
اے دل معاملہ ترا اب آشنا سے ہے
——
ملنے لگے ہیں صورتِ یارانِ صاف دل
جب زیر کر سکے نہ ہمیں دشمنی سے لوگ
——
پھولوں سے بھرے باغ بھی ویراں نظر آئے
شہروں میں بہت کم ہمیں انساں نظر آئے
——
اس مہرباں نے چاند یا سورج تو کیا دئیے
دو اک دیے تھے شہر میں وہ بھی بجھا دئیے
——
کپڑے تو الگ جس نے بدن نوچ لیے ہیں
لو نام کہ وہ شخص بھی عریاں نظر آئے
——
امیرِ وقت دساور میں کوڑیوں کے مول
وطن کو بیچ کے خوش ہے بڑی کمائی کی
——
وحشت کے واسطے نئی تدبیر چاہیے
ان مہوشوں کے پاؤں میں زنجیر چاہیے
——
ہر بات زندگی میں بڑی دیر سے ہوئی
منزل پہ آ لیے تو ہمیں ہم سفر ملے
——
بکھرے تو پھر بہم مرے اجزا نہیں ہوئے
سرزد اگرچہ معجزے کیا کیا نہیں ہوئے
جو راستے میں کھیت نہ سیراب کر سکے
کیوں جذب دشت ہی میں وہ دریا نہیں ہوئے
انسان ہے تو پاؤں میں لغزش ضرور ہے
جرم شکست جام بھی بے جا نہیں ہوئے
ہم زندگی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں
لیکن کسی محاذ سے پسپا نہیں ہوئے
انساں ہیں اب تو مدتوں ہم دیوتا رہے
شکلیں نہیں بنیں جو ہیولیٰ نہیں ہوئے
ٹھہرو ابھی یہ کھیل مکمل نہیں ہوا
جی بھر کے ہم تمہارا تماشا نہیں ہوئے
ہر سر سے آسمان کی چھت اٹھ نہیں گئی
کب تجربے میں شہر یہ صحرا نہیں ہوئے
شوکتؔ دیار شوق کی رونق انہی سے ہے
جو اپنی ذات میں کبھی تنہا نہیں ہوئے
——
عجیب بات ہے دن بھر کے اہتمام کے بعد
چراغ ایک بھی روشن ہوا نہ شام کے بعد
سناؤں میں کسے روداد شہر نا پرساں
کہ اجنبی ہوں یہاں مدتوں قیام کے بعد
خرد علیل تھی دور شراب سے پہلے
قدم میں آئی تھی لغزش شکست جام کے بعد
ستم ظریفیٔ تاریخ ہے کہ مسند گیر
سدا خواص ہوئے انقلاب عام کے بعد
حباب سوچ کے کیا ہم رکاب موج ہوا
کہ بیٹھ جانا تھا جب ایک آدھ گام کے بعد
رہے چراغ دریچے میں در کھلا رکھنا
مسافر آن نکلتے ہیں بعض شام کے بعد
کبھی کبھی تو ہو شوکتؔ شدید یہ احساس
کہ ہم طیور قفس میں پڑے ہیں دام کے بعد
——
شعری انتخاب از خلد خیال ، ذوق خامہ ، مصنف : شوکت واسطی
شائع شدہ 1993 ء ، 1975 ء ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ