ہر چیز مُشترک تھی ہماری سوائے نام

اور آج رہ گیا ہے تعلق برائے نام

اشیائے کائنات سے ناآشنا تھا میں

پھر ایک اِسم نے مجھے سب کے سکھائے نام

تب میں کہوں کہ سچا ہوں یک طرفہ عشق میں

وہ میرا نام پوچھے ، مجھے بھول جائے نام

وہ دلرُبا بھی تھی کسی شاعر کی کھوج میں

میں نے بھی پھر بتایا تخلص بجائے نام

لشکر بنا رہا ہوں جوانانِ عشق کا

جس میں بھی آگ ہے ، مجھے مِل کر لکھائے نام،

تو عشق پائے عشق کے مرنے کے بعد بھی

فارس! مزارِ دل پہ ترا جگمگائے نام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]