ہزار دل میں مرے زخمِ انتظار آئے

خدا کرے کہ وہ اب رشکِ روزگار آئے

ہوائے دہر کسی کو نہ سازگار آئے

یہی سبب ہے جو آئے وہ اشک بار آئے

خوشا نصیب کہ رندوں کو اذنِ ساقی ہے

پیے ہی جائیں نہ جب تک انہیں خمار آئے

اسی کی یاد ہے اب زندگی کا سرمایہ

کسی کی بزم میں جو وقت ہم گزار آئے

صعوبتوں کو بہ خندہ جبیں کیا انگیز

اسی طلب میں کہ اے کاش کوئے یار آئے

ہم آخرش کہ قیامت کی نیند سوئے ہیں

قرار اب تجھے اے چشمِ انتظار آئے

سنا جو ذکرِ بہاراں تو تیرے دیوانے

بہ چشمِ تر بہ گریبانِ تار تار آئے

مری نظرؔ سے نہ گزرو خیال میں آؤ

ہمارے دل کو کچھ اپنا بھی اعتبار آئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]