ہزار چھوڑ کے نقش و نگار گزری ہے

کہ جب خیال سے تصویرِ یار گزری ہے

صبا کے دوش پہ ہو کر سوار گزری ہے

وہ بوئے زلفِ دوتا مشکبار گزری ہے

جب آئی کر کے مجھے دل فگار گزری ہے

وطن کی یاد مرے دل پہ بار گزری ہے

ہنوز یاد سے جس کی کلی کھِلے دل کی

چمن سے ایسی بھی طرفہ بہار گزری ہے

ترے بغیر بھی دنیا گزار دی ہم نے

یہ اور بات بہت سوگوار گزری ہے

چمن چمن پہ پڑی اوس صبح دم دیکھی

نہ جانے کر کے صبا کیا پکار گزری ہے

امیدِ رحمتِ پروردگار ہے دل میں

کہ زندگی تو نظرؔ خام کار گزری ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]