ہم زیست کے شکاروں کی حسرت نکل گئی

جب زیست خود بھی ہو کے شکارِ اجل گئی

اللہ یہ زمانے کو کیا روگ لگ گیا

اپنے ہوئے ہیں غیر ہوا کیسی چل گئی

کوچہ ہے کس کا صاحبِ کوچہ یہ کون ہے

دنیا بہ اشتیاق جہاں سر کے بل گئی

کیسی خوشی؟ کہاں کی خوشی؟ اے مرے ندیم

صورت ہماری غم ہی کے سانچہ میں ڈھل گئی

لب بند، آنکھ بند، خرد گم، حواس گم

یہ زندگی تو موت سے آگے نکل گئی

الفت نہیں ہے موجبِ الفت اس عہد میں

تھی وہ جو اک حقیقتِ ضرب المثل گئی

ہم زیست کی حقیقتِ پنہاں کے ترجماں

کیا ہم بدل گئے تو حقیقت بدل گئی

آنکھوں میں سب کی ڈھونڈتے پھرتے ہو کیا نظرؔ

ایماں کا جزو یعنی حیا آج کل گئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]