ہم کو اپنی طلب سے سوا چاہیے

آپ جیسے ہیں ویسی عطا چاہیے

کیوں کہیں یہ عطا وہ عطا چاہیے

آپ کو علم ہے ہم کو کیا چاہیے

اک قدم بھی نہ ہم چل سکیں گے حضور

ہر قدم پہ کرم آپ کا چاہیے

آستان حبیب خدا چاہیے

اور کیا ہم کو اس کے سوا چاہیے

آپ اپنی غلامی کو دے دیں سند

بس یہی عزت و مرتبہ چاہیے

اپنے قدموں کا دھوون عطا کیجیے

ہم مریضوں کو آبِ شفا چاہیے

سبز گنبد کی ہمسائیگی بخش دے

یہ مسلسل کرم اے خدا چاہیے

حشر کی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں

ان کے دامن کی ٹھنڈی ہوا چاہیے

اور کوئی بھی اپنی تمنّا نہیں

ان کے پیاروں کی پیاری ادا چاہیے

عشق میں آپ کے ہم تڑپتے تو ہیں

ہر تڑپ میں بلالی ادا چاہیے

دردِ جامیؔ ملے نعت خالدؔ لکھوں

اور انداز احمد رضاؔ چاہیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]