ہو کون عہدہ بر آ مدحتِ پیمبر سے

کہ پار اتر نہ سکا کوئی اس سمندر سے

نہ آفتاب سے روشن نہ ماہ و اختر سے

ہے کُل زمانہ منوّر حضورِ انور سے

نکل رہا ہے پسینہ جو جسمِ اطہر سے

بڑھا ہوا ہے وہ خوشبو میں مشک و عنبر سے

نگاہ کر نہ سکیں عاشقانِ تیز نگاہ

جلال و رعب وہ ٹپکے رُخِ پیمبر سے

دلِ سیاہ بھی نا ممکن العلاج نہیں

جو کسبِ نور کرے سیرتِ مطہّر سے

قدم جمے ہی رہے آنحضور کے پھر بھی

اُحد میں موجۂ خوں بھی گزر گئی سر سے

سکوں نصیب ہے از یادِ شافعِ محشر

لرز رہا تھا ابھی دل حسابِ محشر سے

وہ یارِ غار کا انفاق فی سبیل اللہ

اٹھا کے لائے وہ سارا اثاثہ ہی گھر سے

بفکرِ اُمّتِ عاصی وہ شب میں ہے بیدار

حضورِ رب میں دعائیں وہ اُٹھ کے بستر سے

مقربین ملائک درود پڑھتے ہیں

ملا ہے حکم یہی ان کو ربِّ اکبر سے

غمِ فراقِ دیارِ حبیب یا اللہ

اُٹھیں جو غم کے یہ بادل نہ جائیں بن برسے

وہ بارگاہ نظرؔ ہم بھی دیکھ آئے ہیں

عجب نہیں ہے کہ پھر دیکھ لیں مقدّر سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]