ہوائے ظلم سر کربلا چلی کیا ہے

نبی کے باغ پہ چھائی افسردگی کیا ہے

گلے پہ تیرِ ستم کھا کے کر دیا

کہ شیر خوار کی شانِ سپہہ گری کیا ہے

جھکائے سایۂ شمشیر میں نہ سر کیونکر

حسینؑ جانتے تھے حق کی بندگی کیا ہے

دکھاتے منزلِ حق کی نہ راہ کیوں سرور

وہی تو جانتے تھے طرزِ رہبری کیا ہے

غم حسین میں رو رو کے دن گزارتے ہیں

مجھے خبر نہیں پرتاپؔ اب خوشی کیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]