ہوش و خرد، غرورِ تمنا گنوا کے ہم

پہنچے ترے حضور میں کیا کیا لٹا کے ہم

کوہِ گرانِ عشق تری رفعتوں کی خیر

دامن میں تیرے آ گئے تیشہ گنوا کے ہم

ہم پیش کیا کریں اُسے کشکول کے سوا

وہ ذات بے نیاز ہے، بھوکے سدا کے ہم

نادم ہیں کر کے چہرۂ قرطاس کو سیاہ

ناموسِ حرف اوجِ قلم سے گرا کے ہم

ہم لوگ ہیں ظہیرؔ اُسی اک خیال کے

نکلے نہ جس خیال سے اک بار جا کے ہم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]