ہونٹ جب اسمِ محمد کے گہر چومتے ہیں

تب کہیں حرفِ دعا بابِ اثر چومتے ہیں

گھیر لیتے ہیں انہیں کیفِ کرم کے جگنو

ان کی چوکھٹ کو جو با دیدۂ تر چومتے ہیں

ان کے چہرے کی صباحت کا سماں کیا ہوگا

جن کے تلووں کی لطافت کو قمر چومتے ہیں

ورنہ پتھر کو کہاں ملنا تھا ایسا رتبہ

آپ نے چوما تھا سو ہم بھی حجر چومتے ہیں

ہے یہ اظہارِ عقیدت بھی عقیدہ بھی یہی

نام سرکار کا ہم شام و سحر چومتے ہیں

جس کی آنکھوں میں بسی ہوگی مدینے کی گلی

نور والے اسی زائر کی نظر چومتے ہیں

جب عطا ہوتا ہے اشفاق یہ میٹھا تحفہ

ہم عقیدت سے مدینے کی تمر چومتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]