ہے خام و خجل خستہ خیالی ، مرے سائیں

ممکن ہے کہاں مدحتِ عالی ، مرے سائیں

امکان سے باہر ہی رہی مدح سرائی

تدبیر نے جو طرح بھی ڈالی ، مرے سائیں

حاضر ہیں ، بصد عجز ، ترے شہرِ کرم میں

مَیں اور مرا دامنِ خالی ، مرے سائیں

بہہ جاؤں کسی روز کسی سیلِ طلب میں

اور دیکھوں ترے روضے کی جالی ، مرے سائیں

صد شکر تری نعت کے گُلزار کھلے ہیں

بے برگ تھی اُفکار کی ڈالی ، مرے سائیں

بے روک ترے جُود و عنایات کی بارش

بے مثل ترا فیضِ مثالی ، مرے سائیں

گو جسم ابھی کوئے مشیت میں پڑا ہے

یہ دل ہے ترے در کا سوالی ، مرے سائیں

اِک نعت کی خیرات بصد لطف و عنایت

الطاف و عنایات کے والی ، مرے سائیں

جاذب ہے ترا صیغۂ اجلالِ مجلیٰ

دلکش ہے تری طرزِ مقالی ، ، مرے سائیں

اب آمدِ تسکینِ دل و جاں کی خبر ہو

دل نے ہے بہت دُھوم مچا لی ، مرے سائیں

شاہانِ زمن بھی ترے الطاف کے سائل

مقصودؔ بھی ہے تیرا سوالی ، مرے سائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]