ہے خام و خجل خستہ خیالی ، مرے سائیں
ممکن ہے کہاں مدحتِ عالی ، مرے سائیں
امکان سے باہر ہی رہی مدح سرائی
تدبیر نے جو طرح بھی ڈالی ، مرے سائیں
حاضر ہیں ، بصد عجز ، ترے شہرِ کرم میں
مَیں اور مرا دامنِ خالی ، مرے سائیں
بہہ جاؤں کسی روز کسی سیلِ طلب میں
اور دیکھوں ترے روضے کی جالی ، مرے سائیں
صد شکر تری نعت کے گُلزار کھلے ہیں
بے برگ تھی اُفکار کی ڈالی ، مرے سائیں
بے روک ترے جُود و عنایات کی بارش
بے مثل ترا فیضِ مثالی ، مرے سائیں
گو جسم ابھی کوئے مشیت میں پڑا ہے
یہ دل ہے ترے در کا سوالی ، مرے سائیں
اِک نعت کی خیرات بصد لطف و عنایت
الطاف و عنایات کے والی ، مرے سائیں
جاذب ہے ترا صیغۂ اجلالِ مجلیٰ
دلکش ہے تری طرزِ مقالی ، ، مرے سائیں
اب آمدِ تسکینِ دل و جاں کی خبر ہو
دل نے ہے بہت دُھوم مچا لی ، مرے سائیں
شاہانِ زمن بھی ترے الطاف کے سائل
مقصودؔ بھی ہے تیرا سوالی ، مرے سائیں