ہے شانہ کش رقیب جو گیسوئے یار میں

رگ رگ ہے میرے دل کی غضب کے فشار میں

آدم بھی آکے روئے یہاں ہجر یار میں

یہ رسم ہے قدیم اس اجڑے دیار میں

جاگے تھے شب کو سوئے ہیں دن کو مزار میں

دنیا ہوئی ادھر کی اُدھر ہجرِ یار میں

جادو بھرا تھا اس نگہ شرمسار میں

ملتے ہی آنکھ، دل نہ رہا اختیار میں

ہم تنکے چن رہے ہیں نشیمن کے واسطے

بجلی چھپی ہے دامنِ ابرِ بہار میں

آئے عدم سے گلشنِ ہستی کی سیر کو

دامن الجھ گیا ہے یہاں خارزار میں

آنکھیں لگی ہیں در پر نکلتا نہیں ہے دم

ٹھہری ہوئی ہے روح تیرے انتظار میں

جوشِ جنوں نے دشت کو گلزار کر دیا

ہے خون میرے پاؤں کا ہر نوکِ خار میں

گیسو کی یاد ہے ، کبھی رخ کا خیال ہے

کٹتی ہے عمر اب اسی لیل و نہار میں

منبر میں جاکے دیکھیے واعظ کا حالِ زار

پرہیز مے زباں پر ہے ، آنکھیں خمار میں

سب زخم سر ہرے ہیں قبا ہے لہو میں تر

لایا ہے رنگ جوشِ جنوں پھر بہار میں

قاتل کو میرے سمجھے تھے دشمن کوئی مرا

نکلا تلاش سے وہ مرے دوستدار میں

عشقِ بتاں نے کردیا میرا تباہ حال

کس کو ہے دخل مصلحتِ کردگار میں

یاں جوشِ گریہ اور وہاں حکم ضبط ہے

پڑ جاتی ہے گرہ مرے اشکوں کے تار میں

گردش پہ اپنی ، شمسؔ ! ہمیں صبر آگیا

کس کو ملا سکوں اس اجڑے دیار میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]