یوں تری یاد میں سلگتے ہیں

جیسے صحرا میں پیڑ جلتے ہیں

لے اُڑے گی ہوائے دہر ہمیں

ہم خزاں رُت کے زرد پتے ہیں

خشک دریا اُنہیں نہیں دُکھتے

جو پرندے اُڑان رکھتے ہیں

جوڑتے ہیں تمام دن خود کو

رات بھر ریزہ ریزہ ہوتے ہیں

رتجگے کاٹتے ہیں راتوں کو

ہم کہ دن بھر جو نیند بوتے ہیں

ہوگئی ہار ، جیت بے معنی

آؤ یہ کھیل ختم کرتے ہیں

اِس لئے بے مراد ہیں شاید

دل میں جو آئے کر گزرتے ہیں

خواب اُس کے قدم قدم اشعرؔ

آنکھ کے راستے میں آتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]