یہ جو عشّاق ترے طیبہ میں آئے ہوئے ہیں

اپنی تقدیر ترے در پہ جگائے ہوئے ہیں

سر پہ رکھے ہوئے ہیں عیب کی گٹھری لیکن

سُن کے جاءوک وہ امید لگائے ہوئے ہیں

ہم سے ناکارہ و مجرم بھی ہیں مہمانوں میں

اور کچھ خاص ترے پیارے بھی آئے ہوئے ہیں

یہ تری آل کے گوہر، یہ ترے نُورِ نظر

بندہ پرور ہیں ہمیں ساتھ جو لائے ہوئے ہیں

کیسی چاہت ہے محبت ہے ادب ہے ان میں

اپنی آنکھیں ترے گنبد پہ جمائے ہوئے ہیں

کون لائے گا بھلا ان کی بصیرت کا جواب

خاکِ رہ تیری جو آنکھوں میں لگائے ہوئے ہیں

یہ تصور ہے مرا میں ہوں انہیں میں شامل

وہ جو قسمت سے ترے شہر میں آئے ہوئے ہیں

دور بیٹھا ہوا نوری بھی ہے دیدادر طلب

ان کا نوکر جو ترے آپ بلائے ہوئے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]