یہ روگ ہجراں کے پیچ اور خم سے لگ نہ جائے

ہمارا شانہ کسی نئے غم سے لگ نہ جائے

یہ سرد چہرہ سلگ رہا ہے عجب تپش ہے

کہ آگ آنکھوں کے بہتے اس نم سے لگ نہ جائے

کچھ اس لئے بھی میں یہ تعلق نبھا رہی ہوں

وہ شخص بستر سے ، اب مرے غم سے لگ نہ جائے

ذرا ذرا سے ہمیں میسر بھی کیوں رہو تم ؟

ہمیں زیادہ کا حرص اس کم سے لگ نہ جائے

سو اب محبت کو ترک کرنا پڑے گا کومل

ہمارے بچوں کو یہ نشہ ہم سے لگ نہ جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]