یہ طبیعت مجھے اپنا نہیں بننے دیتی

جیسے سب ہیں مجھے ویسا نہیں بننے دیتی

آنکھ ایسی ہے کہ دیکھے نہیں جاتے حالات

سوچ ایسی ہے کہ اندھا نہیں بننے دیتی

دُور اندر سے کہیں ایک اُبھرتی ہوئی چیخ

میرے احساس کو بہرا نہیں بننے دیتی

ظلم ایسا ہے کہ دنیا کی زبانیں خاموش

یہ خموشی مجھے گونگا نہیں بننے دیتی

دلِ وحشی مجھے ہونے نہیں دیتا سرسبز

چشم گریہ ہے کہ صحرا نہیں بننے دیتی

دشت ایسا ہے کہ چھتنار شجر ہیں ہر گام

دھوپ ایسی ہے کہ سایا نہیں بننے دیتی

خاک ایسی ہے کہ ہر ذرہ طلبگار نمو

رُت وہ ظالم کہ شگوفہ نہیں بننے دیتی

شہر ایسا ہے کہ تا حدِ نظر امکانات

بھیڑ ایسی ہے کہ رستہ نہیں بننے دیتی

حرمتِ خامہ وہ ضدی جو کسی قیمت پر

سکۂ حرف کو پیسہ نہیں بننے دیتی

کیا قیامت ہے کہ اب میرے تصور کی تھکن

بادلوں میں کوئی چہرہ نہیں بننے دیتی

میں کسی اور کا بنتا تو منافق ہوتا

یہ انا مجھ کو کسی کا نہیں بننے دیتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]