یہی درد ہے میری زندگی کہ عطائے عشقِ رسول ہے

جسے تم سمجھتے ہو خار ہے یہ سدا بہار کا پھول ہے

سفرِ حبیب کی رفعتیں یہ لطافتیں یہ نظافتیں

ہوئی مس نہ پائے رسول سے کہ یہ کہکشاں بھی تو دھول ہے

نہ ہے رنگ عشقِ رسول کا نہ مہک ہے یادِ حبیب کی

بھلا ایسے دل کو میں دل کہوں کہ یہ ایک کاغذی پھول ہے

ہے یہی سعادتِ زندگی ہے یہی سرشتئہ بندگی

مری فکر نعت شہِ ہدیٰ مر ورد ذکرِ رسول ہے

مرے ہر نفس میں ہے سرخوشی مرا سوز وساز ہے سرمدی

کہ یہاں خزاں کا گذر نہیں یہ بہارِ عشقِ رسول ہے

یہی شمس ہے میری آواز ہے کمالِ عزت وآبرو

کہ حضور کہہ دیں غلام سے تری نذر ہم کو قبول ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]