شق ہوئی مصرِ تمنا کی زمیں، دفن ہوئے

ہم تھے قارونِ تخیل کے نگیں، دفن ہوئے

تیری متروک شریعت کے فراموش خدا

دل کی تاراج زمینوں میں کہیں دفن ہوئے

ہم ہمیشہ کے لیے خاک کیے جاتے ہیں

ہم خزانوں کی طرح سے تو نہیں دفن ہوئے

شعر دربار میں موجود رہے دو زانو

تاجدارانِ سخن تخت نشیں دفن ہوئے

تُو کہ افلاک سے اترا تھا وہیں لوٹ گیا

ہم اسی خاک سے ابھرے تھے یہیں دفن ہوئے

دھنس گئیں ریت میں خواہش کی عبادت گاہیں

سر بسجدہ تھے جہاں خواب وہیں دفن ہوئے

مرگ اتری ہے دلِ زار میں زینہ زینہ

مرحلہ وار سبھی دل کے مکیں دفن ہوئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]