شعور و عقلِ بشر کی عیاں ہے مجبوری

ثنائے سرورِ عالم ہو کس طرح پوری

ہے دور شہرِ مدینہ تو یہ ہے مجبوری

پر اس کی یاد میں حائل نہ ہو سکے دوری

خجل ہو ماہِ منوّر وہ چہرۂ نوری

وہ بوئے زُلفِ دوتا ہے کہ ہیچ کستوری

فروغِ نور سے منظر ہے دیدنی دل کا

جب ان کی یاد کی جلتی ہو شمع کافوری

سنبھال کراسے رکھ اپنے سینہ و دل میں

متاعِ بیش بہا ہے یہ دردِ مہجوری

وہ لا مکاں میں قدم زن ہوا تنِ تنہا

مقامِ سدرہ پہ روح الامیں کو معذوری

خدا کا بندۂ محبوب سرورِ کونین

اسی نے ہم کو سکھائی ادائے جمہوری

نگاہِ مست کے صدقے کہ اک اشارے پر

اُٹھا کے مستوں نے پھینکی شرابِ انگوری

پسینہ خشک نہ ہو پائے از تنِ مزدور

ہے اس کا حکم کہ پہلے ادا ہو مزدوری

ہمیں نہ فخر ہو کیوں کالی کملی والے پر

ہیں ٹھوکروں میں پڑے جس کی تاجِ فغفوری

پہنچ کے روضۂ انور پہ میں سلام پڑھوں

نظرؔ یہ دل کی تمنّا خدا کرے پوری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]