شہرِ امکان میں وہ ساعتِ حیرت آئے

لفظ سوچوں تو لبوں پر تری مدحت آئے

پورے احساس میں کھِل اُٹھیں بہاریں جیسے

دل دریچے سے تری یاد کی نکہت آئے

ساتھ رکھتا ہوں ترے خواب میں آنے کا یقیں

قریۂ جان میں تنہائی سے وحشت آئے

جادۂ شوق پہ رنگوں کی دھنک آرائی

بہرِ ترحیب سلامی لئے طلعت آئے

سارے امکان کریں چاکری تیرے در کی

دل کی دُنیا میں اگر تیری حکومت آئے

تیرے آثار کو تکنے مری خواہش دوڑے

تیری دہلیز کو چھونے مری چاہت آئے

کاش رہ جاؤں مدینے کا مقامی ہو کر

کاش تقدیر میں ایسی کوئی ہجرت آئے

اُن کی مقصودؔ ہے محشر میں زیارت مجھ کو

چشمِ بیتاب کی منت ہے قیامت آئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]