آ کر قریب دیکھو نظاروں کے آس پاس

پت جھڑ چھپے ہیں کتنے بہاروں کے آس پاس

اب تک بھٹک رہے ہیں سرابوں کے بیچ میں

منزل کے پُر فریب اشاروں کے آس پاس

مایوسی اُگ رہی ہے جھلستی زمین پر

آکاش چھونے والے چناروں کے آس پاس

دریا ہنر کے ریگِ ضرورت میں کھو گئے

صحرا کھڑے ہیں پیاسے کناروں کے آس پاس

پانی ہمارے دیس کا بے فیض ہو گیا

سبزہ جلا ہوا ہے پھواروں کے آس پاس

پاتال مفلسی کے ترستے ہیں دھوپ کو

اونچی حویلیوں کی قطاروں کے آس پاس

سوتی ہے بے گھری ابھی خیمے میں رات کے

بھوکا بدن بچھا کے دواروں کے آس پاس

چنگاریوں کے جگنو پکڑنے چلے ہیں دوست

ریشم کا جال لے کے شراروں کے آس پاس

دنیا سمجھ رہی ہے جسے کہکشاں ظہیرؔ

تاریکیوں کے گھر ہیں ستاروں کے آس پاس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]