آخرش لمحہِ موجود سے معدوم ہوئے

ہم کہ اک لمحہِ ناپید میں جینے والے

اک مسیحائے گریزاں کا تصور کر کے

زخم تادیر سلگتے رہے سینے والے

ہم کو آتے ہیں بلاوے کہیں گہرائی سے

کب تلک تھام کے رکھیں گے سفینے والے

عمرِ بے ربط ، کہ ترتیب سے عاری ٹھہری

ہم سے ہوتے ہی نہیں کام قرینے والے

ایک تو چاکِ گریبان پہ خوش ہیں ہم بھی

دوسرے تم بھی نہیں چاک کو سینے والے

ہائے کس کرب کے عالم سے نہ گزرے ہونگے

کوئی سقراط نہ تھے زہر کو پینے والے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]