آخری سپاہی

ماند پڑتے ہوئے شعلوں میں پگھلتے خیمے

جاء بجا بکھرے ہوئے خون میں ڈوبے لاشے

اور وہ ہتھیار ، جو مالک کے جواں سینے کو

آخری وار کے عالم میں نہیں ڈھانپ سکے

خاک اور خون میں غلطیدہ ، دریدہ پرچم

اپنی ناموس پہ کٹتے ہوئے لوگوں کی طرح

صرف اک لاش ہے اب جس کا کوئی نام نہیں۔

سہمے سہمے ہوئے گھوڑوں کی ہراساں نظریں

ایک حیرت سے سواروں کی طرف تکتی ہیں

کہ یہی لوگ تھے ، جو تند بگولوں کی طرح

برق پاء رہ کے شہ گام چلا کرتے تھے

اب یہی لوگ زمیں اوڑھنے والے ٹھہرے؟

دور و نزدیک سے اُٹھتے ہوئے دھویئں خطوط

تیز تر دھوپ کے باوصف عجب لگتے ہیں

جیسے پانی پہ کوئی عکس نظر آتا ہو

اور یہ میدانِ قیامت ، کہ جہاں حدِ نظر

موت کے سرمئی پنچھی کے پروں کا سایہ

صرف اک میں ، کہ جو سہمی ہوئی تلوار لیے

مرگ کے بحر طلسمات میں زندہ بچ کر

سانس لیتا ہوں تو اب سانس سے ڈر لگتا ہے

زیست کا بارِ گراں بار کہاں سے اُٹھے

آنکھ اُٹھتی نہیں ، تلوار کہاں سے اُٹھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]