آنے والو یہ بناوؔ شہرِ مدینہ کیسا ہے

سر انُ کے قدموں میں رکھ کر جھک کر جینا کیسا ہے

گنبدِ خضریٰ کے سائے میں بیٹھ کر تم تو آئے ہو

اس سائے میں رب کے آگے سجدہ کرنا کیسا ہے

دل آنکھیں اور روح تمہاری لگتی ہیں سیراب مجھے

ان کے در پہ بیٹھ کے آبِ زمزم پینا کیسا ہے

دیوانو! آنکھوں سے تمہاری اتنا پوچھ تو لینے دو

وقتِ دعا روضے پہ انُ کے آنسو بہانا کیسا ہے

اے جنت کے حقدارو، مجھ منگتے کو یہ بتلاوؔ

انُ کی سخا سے دامن کو بھر کر آنا کیسا ہے

لگ جاوؔ سینے سے میرے طیبہ سے تم آئے ہو

یہ بتلاوؔ عشرت ان کے گھر سے بچھڑنا کیسا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]