آوازہِ امید نہ اب شورِ ہوس ہے

دھڑکن میں جو گونجی ہے وہ آوازِ جرس ہے

مٹی میں ملائے نہیں جاتے ہیں ستارے

ائے حسرتِ تکلیف ، مرے ظرف کی بس ہے

نایاب اڑانوں کی تصاویر ہیں آنکھیں

یہ پردہِ سیمیں ہے کہ دیوارِ قفس ہے

ہر چند گریبان رہا چاک ہمیشہ

وحشت ہی کوئی اور مگر اب کے برس ہے

نکلا نہ زمانے سے کوئی چاند، نہ دم ہی

اٹکا ہوا آنکھوں میں کہیں ایک نفس ہے

الجھا ہوا تعبیر سے ہے خواب کا ریشم

اک حلقہِ آتش میں خیالات کا خس ہے

صحرائے غمِ ہجر لہو چوس چکا ہے

پر اب بھی لبِ زرد پہ اک یاد کا رس ہے

رہتی ہی نہیں ربط میں گفتار کی کڑیاں

اس درجہِ وحشت پہ کہاں ضبط کا بس ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]