اب اور نہ تڑپاؤ مدینے کی ہواؤ
مجھ کو بھی لیے جاؤ مدینے کی ہواؤ
پیغامِ حضوری کو ترستا ہوں میں کب سے
کچھ کان میں کہہ جاؤ مدینے کی ہواؤ
آقا ہیں جہاں میرے وہ دربار ہے کیسا
کچھ تو مجھے بتلاؤ مدینے کی ہواؤ
سینے میں بہت آج تڑپتا ہے مرا دل
ایسے میں چلی آؤ مدینے کی ہواؤ
خوشبو کے کچھ آثار نہیں ہیں مرے گھر میں
ہاں ہاں ذرا مہکاؤ مدینے کی ہواؤ
کچھ تو دل مضطر کو سکوں آئے میسر
اک لمحہ ٹھہر جاؤ مدینے کی ہواؤ
جو حال ہے سرورؔ کا بھلا تم سے کہیں کیا
ہاں تم ہی ترس کھاؤ مدینے کی ہواؤ