اب کیا بیاں دراز کریں واقعات کا

بس عہد ساز عہد رہا مشکلات کا

اب منحصر حیات تنفس پہ رہ گئی

باعث نہیں رہا کوئی ورنہ حیات کا

عادی ہوا جو دل تری نفرت کا اب اسے

دھڑکا لگا ہوا ہے ترے التفات کا

امکان زندگی کے بظاہر نہیں رہے

میں زکر کر رہا ہوں مگر ممکنات کا

جو زندگی کی دوڑ میں تو نے گنوا دیا

وہ آخری سراغ رہا میری ذات کا

زادِ رہِ جنون میں بس ایک اسم ہے

درپیش اک سفر ہے مجھے کائنات کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]