اترے وہ اِس طرح مرے خواب و خیال میں

رونق سی لگ گئی دلِ آشفتہ حال میں

حسنِ شہِ عرب کی ہیں تابانیاں جدا

خورشید تیرتا ہے رخِ پُر جمال میں

فیضان ہے یہ ناخنِ پائے حضور کا

یونہی کشش نہیں ہے وجودِ ہِلال میں

جب دیکھتے تھے شہرِ نبی اٹھتے بیٹھتے

دن کام کے وہی تھے مرے ماہ و سال میں

پھونکیں حسد کی جس کو نہ ہر گز بُجھا سکیں

محوِ سفر وہ نور ہے حضرت کی آل میں

کیسے بھلا سمجھ لوں تجھے خود سا اِک بشر

جب کہ کثافتیں ہیں مرے بال بال میں

کر دیجئے حضور تبسم کہ حشر میں

بدلے جلالِ ذاتِ الٰہی جمال میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]