احساسِ قرب و دوریِ منزل نہیں رہا

ہم فرض کر چکے ہیں کہ ساحل نہیں رہا

تسخیرِ کائنات کی سرگرمیاں عبث

زیرِ نگیں ترے یہ اگر دل نہیں رہا

ناکامیوں سے مجھ کو ملا عزمِ مستقل

نعم الحصول ہے کہ جو حاصل نہیں رہا

نالے فلک شگاف نہیں، آہ نا رسا

دل اب کچھ اعتبار کے قابل نہیں رہا

صحنِ چمن میں لالہ و گل ہیں تو سہی مگر

کیا بات ہے کہ شورِ عنادل نہیں رہا

تجھ کو جنونِ قیس نہیں ورنہ یہ نہیں

پردہ نشیں کوئی پسِ محمل نہیں رہا

سر مست چشمِ ساقیِ خاکِ عرب ہوں میں

بد مستِ نشۂ مئے باطل نہیں رہا

مکر و فریب و بغض وعناد و حسد نظرؔ

شائستہ اب قرینۂ محفل نہیں رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]