ارضِ بطحا کی طرح کوئی زمیں ہے تو کہو

سارے عالم میں کوئی اُن سا حسیں ہے تو کہو

اُن کے اندازِ سخاوت کی نہیں مثل کوئی

اُنکے اخلاق سی فرخندہ جبیں ہے تو کہو

اُنکے ہاں اپنے درودوں کو امانت رکھ دو

میری سرکار سا دُنیا میں امیں ہے تو کہو

رب کے محبوب سے مانگا ہے تو پھر فکر نہ کر

لبِ سرکار پہ گر لفظِ ’’نہیں‘‘ ہے تو کہو

میرے آقا کو تذبذب میں پکارے نہ کوئی

ہاں اگر ان کی عطاؤں پہ یقیں ہے تو کہو

رونقِ ارض و سما کا ہے مدینہ مسکن

ایسی پُرنور فضا اور کہیں ہے تو کہو

گنبدِ سبز بڑے فخر سے کہتا ہے یہی

رب کی خلقت میں کہیں ایسا مکیں ہے تو کہو

رب کے محبوب ہی مقصودِ دو عالم ہیں شکیلؔ

کچھ بھی آقا کے سوا حاصلِ دیں ہے تو کہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]