اس شہرِ شب زدہ میں کہ جنگل سے کم نہیں

جگنو شعورِ ذات کا مشعل سے کم نہیں

اک مختصر سا لمحۂ بے نور و بے یقین

تقویمِ شب میں ساعتِ فیصل سے کم نہیں

اک یاد مشکبو تری زلفِ سیاہ کی

چشمِ شبِ فراق میں کاجل سے کم نہیں

دامانِ احتیاج میں دینارِ بے کسب

جوفِ شکم میں تیغ مصقّل سے کم نہیں

حاصل ہے سخت کوشیِ عمرِ خراب کا

اک خطۂ زمین جو دلدل سے کم نہیں

بنجر زمین، دھوپ اور اک خالی آسمان

سایہ کسی پرند کا بادل سے کم نہیں

سیالِ غم بھی ڈھونڈ کے تم نے پیا ظہیرؔ

تریاق جس کا زہر کی بوتل سے کم نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]