اس چہرۂ حسیں کا خیالِ حسیں رہے

دل میں کھلی سدا یہ کتابِ مبیں رہے

گلشن پسند ہم تھے پہ صحرا نشیں رہے

اندوہگیں سے ہائے ہم اندوہگیں رہے

سر مستی و سرور کا اس کے ٹھکانہ کیا

جس دل کی سمت وہ نگہِ سرمگیں رہے

خاکی تھے ہم تو خاک سے نسبت نہیں گئی

روئے زمیں سے اٹّھے تو زیرِ زمیں رہے

اس طرح بھی ملی ہے کبھی منزلِ مراد؟

دیکھی کہیں جو دھوپ تو سایہ نشیں رہے

منزل کی سمت چلتے زمانہ گزر گیا

دیکھا پلٹ کے جب تو جہاں تھے وہیں رہے

ہر لحظہ مٹتے جاتے ہیں رنگیں نقوشِ دہر

دنیا ہماری آنکھ میں کیونکر حسیں رہے

ہر آرزوئے دل سے تقاضا ہے روز و شب

جائے نکل یہ دل سے مرے پھر کہیں رہے

اللہ رے انقلابِ زمانہ کہ اے نظرؔ

کافر یہ کہہ رہا ہے مسلماں نہیں رہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]