اس کو نہ چھو سکے کبھی رنج و بلا کے ہاتھ

اٹھے ہیں جس کے حق میں رسولِ خدا کے ہاتھ

بھیجا گیا ہے دین رسولِ خدا کے ہاتھ

ایسا چراغ، دُور ہیں جس سے ہوا کے ہاتھ

دیکھوں گا جب بھی روضہ ء اقدس کی جالیاں

چُوموں گا فرطِ شوق سے پیہم لگا کے ہاتھ

گیسوئے مصطفی سے یقینا ہوئی ہے مس

خوشبو کہاں سے آئی یہ بادِ صبا کے ہاتھ

خاطر میں کب وہ لائے گا شاہانِ وقت کو

اُٹھتے ہوں صرف اُن کی طرف جس گدا کے ہاتھ

محشر میں مجھ پہ سایہ ء لطفِ رسول ہو

میں یہ دعائیں مانگ رہا ہوں اُٹھا کے ہاتھ

ممکن نہ تھا کہ روضہ ء اقدس کو چُھو سکیں

آگے بڑھا دیا ہے نظر کو بنا کے ہاتھ

بے حد و بے شمار خطائیں سہی ، مگر

کچھ غم نہیں کہ لاج ہے اب مصطفی کے ہاتھ

ہم عاصیوں کے آپ ہی تو دستگیرہیں

ہم سب کا آسرا ہیں شہ ِ انبیاء کے ہاتھ

اخیار کی دُعا کا وسیلہ تلاش کر

عرشِ بریں سے دُور نہیں اولیا کے ہاتھ

میں ہوں گدائے کوچہ ء آلِ نبی نصیر

دیکھے تو مجھ کو نارِ جہنم لگا کے ہاتھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]