اسے بھی روک لیا، خود بھی چل نہیں رہا ہوں

سفر بھی کیا ہو کہ میں خود سنبھل نہیں رہا ہوں

کوئی چراغ مری جستجو میں جل رہا ہے

میں آفتاب ہوں لیکن نکل نہیں رہا ہوں

ہزاروں مشکلیں درپیش آ رہی ہیں مجھے

مگر یہ کم ہے کہ رستہ بدل نہیں رہا ہوں

مجھے چراغوں میں کرتا نہیں شمار کوئی

دھواں تو اٹھتا ہے لیکن میں جل نہیں رہا ہوں

یہ عشق میرے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے

نگل نہیں رہا ہوں میں ، اگل نہیں رہا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]