امکانِ اوجِ فکر سے اعلیٰ کہوں تجھے

اک ذہنِ نارسا لئے میں کیا کہوں تجھے

فضل و عطا کہوں تجھے جود و سخا کہوں

رحمت جہانِ کُن کی سراپا کہوں تجھے

تیری مثال ہی نہیں کیسے مثال دوں

ہر وصف ہر کمال میں یکتا کہوں تجھے

تیرے کرم سے عیب ہیں سب کے چھپے ہوئے

بے سایہ ستر پوشِ زمانہ کہوں تجھے

سب کچھ ہے میرا تو مرا سب کچھ تجھی سے ہے

دنیا کہوں تجھے’ مری دنیا کہوں تجھے

ہر غم کی ہر الم کی دوا تیرے پاس ہے

ائے میرے چارہ گر میں مسیحا کہوں تجھے

قربان خود ہی اپنے تصوّر پہ جاؤں میں

تو سامنے ہے اپنی تمنّا کہوں تجھے

کہنا بھی چاہوں کہہ بھی نہ پاؤں میں تجھ سے کچھ

کیا کیا ہے میرے دل میں میں کیا کیا کہوں تجھے

قدموں میں تیرے کر کے نثار اپنے جان و دل

جانِ جہان جانِ تمنّا کہوں تجھے

معراج ہو مری جو مجھے اپنا تو کہے

خود پر ہے فخر مجھ کو کہ اپنا کہوں تجھے

عارف ہوں میں کہ بندۂ درگاہ ہوں ترا

مولیٰ کہوں تجھے مرا آقا کہوں تجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]