ان کے ہوئے تو کوئی مصیبت نہیں رہی
اہلِ ستم کی کوئی شرارت نہیں رہی
بیمار نے درود جو لب پر سجا لیا
اب درد کیا؟ سرے سے جراحت نہیں رہی
میرے کریم آپ کے طیبہ کو دیکھ کر
کچھ اور دیکھ لینے کی چاہت نہیں رہی
اپنے رسولِ پاک کی جب دید ہو گئی
من میں کسی کی کوئی بھی صورت نہیں رہی
زاہدؔ کو مل گئی ہے محبّت جو آپ کی
پھر آپ سی کسی کی محبّت نہیں رہی