اندھیری رات ، اُداسی ، دُھند ، سردی

چلو فارس ! کریں آوارہ گردی

اُمیدیں جل بُجھِیں ایک ایک کرکے

کسی نے آتے آتے دیر کردی

ھزاروں رت جگوں کے بعد کل رات

مُجھے اِک خواب نے تیری خبر دی

غزل کی شاخ پر جب پھُول آیا

کسی کی یاد نے دادِ ھُنر دی

دل و جاں نیلمیں سے ھوگئے ھیں

کھُلا جب سے وہ آنچل لاجوردی

مجھے یہ کیا ھُوا بیٹھے بٹھائے ؟

کہ اشکوں سے تری تصویر بھر دی

گُلابی وقت کم کم رہ گیا ھے

فضا میں پھیلتی جاتی ھے زردی

مری کچھ دوست چڑیوں نے سحر دم

مرے خاموش دِل میں جان بھر دی

مَیں چُپ ھوجاوں گا ، پھر بھی چلے گی

مری آواز کی صحرا نوَردی

اُنہیں پازیب پہنائی تو مَیں نے

متاعِ جاں بھی اُن پیروں پہ دھر دی

ھمارے دھیان یُوں گھُل مِل گئے ھیں

کہ مَیں نے بات سوچی ، تُو نے کر دی

وھی دے گا مرے صحرا کو سبزہ

کہ جس نے بادلوں کو چشمِ تر دی

کسی کو خُوبصُورت کہہ کے تُو نے

مرے دِل میں عجب تشویش بھر دی

اُن آنکھوں کے چراغوں نے ھی فارس

مری راتوں کو اُمّیدِ سحر دی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]