اور مہک تھی جو اس باغ کی گھاس میں تھی

اس کے پاؤں کی خوشبو بھی اُس باس میں تھی

تجھ بارش نے تن پھولوں سے بھر ڈالا

خالی شاخ تھی اور اِس رُت کی آس میں تھی

تونے آس دلائی مجھ کو جینے کی

میں تو سانسیں لیتی مٹی یاس میں تھی

یاد تو کر وہ لمحے وہ راتیں وہ دن

میں بھی تیرے ساتھ اُسی بن باس میں تھی

ہر پل تیرے ساتھ تھی میں کب دور رہی

میں خوشبو تھی اور تیرے احساس میں تھی

بارش تھی شب بھر اور بھیگ رہی تھی میں

جاناں کیسی شدت میری پیاس میں تھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]