اِک ذرہِ حقیر سے کمتر ہے میری ذات

ائے بے کراں ، عمیق ، پُر اسرار کائنات

سلجھی تو خیر کیا کہ محبت کے ہاتھ سے

کچھ اور اُلجھنوں میں اُلجھتی گئی حیات

کیا کچھ نہیں ہیں رنگ سرِ خاکداں مگر

اس کم نصیب خاک کو حاصل نہیں ثبات

اِک لمحہِ جنون گزرنے کی دیر میں

بیتے ترے غریب پہ کیا کیا نہ واقعات

دِل تو نہیں رہا ہے مگر دشتِ شوق میں

بکھری ہوئی ہیں دُور تلک دِل کی باقیات

کیا کچھ نہیں ہے چشمِ تصور کے سامنے

لینے لگے ہیں سانس ، مجسم تخیلات

ایندھن بہت ہی کم ہے چراغ ِ حیات میں

جبکہ بہت طویل ہے گہری سیاہ رات

ہائے رے سادگی ، ترا کمزور حافظہ

دل ہے کہ پھر سے باندھ رہا ہے توقعات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]