آج بھی ہے مرا ہم سفر آئینہ

مدتوں سے یہ نامعتبر آئینہ

کیسا منظر گرا وقت کے ہاتھ سے

میں پڑا ہوں ادھر اور ادھر آئینہ

کون نظریں ملائے مرے خواب سے

آئینہ بھی یونہی ، ہاں مگر آئینہ

معجزہ ہے یہ سب اک دُر اشک کا

ہے مجھے زرہءِ رہ گزر آئینہ

ڈر رہا ہوں بہت اس کی صورت سے میں

ہنس رہا ہے مرے حال پر آئینہ

کوئی مجھ سے اسے دور لے جائے اب

کر رہا ہے مجھے دربدر آئینہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]