آنکھ محرومِ نظارہ ہو ، ضروری کیا ہے
دل میں جب شوقِ زیارت ہے تو دوری ، کیا ہے
اُن کی تعظیم میں وہ آنکھ اٹھاتے کب ہیں
جو سمجھتے ہیں تقاضائے حضوری کیا ہے
"خواب میں دید یہاں ” اور شفاعت ” واں ہو”
بات پھر دنیا و عقبیٰ میں ادھوری کیا ہے
"حسنِ رحمت سے جہانوں کو منور کرنا”
دہر میں آپ کا ” مقصودِ ظہوری” کیا ہے
رہِ سیرت پہ کبھی پاؤں نہ ڈولیں میرے
ماسوا اس کے، مری ، سعیِ شعوری کیا ہے
آپکی ہستی ہے ” تخلیقِ مکمّل ” آقا
ورنہ دنیا میں کوئی چیز بھی پوری ، کیا ہے
ظلمتِ دشت کے گمراہو! مدینے آؤ
آ کے نظارہ کرو گلشنِِ نوری کیا ہے