آنکھ کو چھُو کے پسِ حدِ گماں جاتی ہے

روشنی گنبدِ اخضر کی کہاں جاتی ہے؟

مژدۂ اذن سے مربوط ہے طیبہ کا سفر

آرزو روز کراں تا بہ کراں جاتی ہے

ربط موقوف نہ ہو آپ کی مدحت سے مرا

ایسا سوچوں بھی تو آقا ! مری جاں جاتی ہے

اُن کے دامانِ عنایت کی پنہ مِل جائے

نارسا ہاتھ ہیں اور میری اماں جاتی ہے

پہلے آجاتا ہے اُس شہرِ کرم بار سے اذن

ان کی درگاہ میں پھر عرضِ نہاں جاتی ہے

نام لیتا ہُوں ترا بہرِ خیالِ نکہت

نعت کہتا ہُوں تو گلشن سے خزاں جاتی ہے

خطِ بے حد سے بھی آگے کا سفر تھا معراج

قُرب تو حد ہے جہاں نوکِ کماں جاتی ہے

دید، تجسیم نہیں کرتے ہیں احساس کے ہاتھ

آنکھ سے دل کو، بس اِک موجِ رواں جاتی ہے

پیشِ سرکار عجب رہتا ہے بے ربط سکوت

پہلے دل رُکتا ہے پھر تابِ زباں جاتی ہے

جنتِ ارضی ہے لاریب ترا شہرِ کرم

اس کی ہر ایک گلی سُوئے جناں جاتی ہے

بازگشت آئی ہے مقصودؔ اچانک دل سے

نعت اب سُوئے فلک نور فشاں جاتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]