آنکھیں کھلیں تو مائلِ پندار کیوں ہوئے

غفلت ہی ہم کو خوب تھی ہشیار کیوں ہوئے

پوچھا یہ کیا ؟ ہمارے طلبگار کیوں ہوئے

یہ کہیے آپ اتنے طرحدار کیوں ہوئے

غافل یہ شرحِ عشق کی گر پیروی نہیں

منصور جیسے زیب سرِ دار کیوں ہوئے

حیرت نے کی زباں جو دمِ عرض حال بند

بولے کہ چُپ ترے لبِ اظہار کیوں ہوئے

دیکھا جو پھول دستِ نگارین یار میں

کھاتے ہیں خار ، خار ، کہ ہم خار کیوں ہوئے

نکلے نہ تم مکان سے باہر کبھی مگر

مشہورِ شہر و کوچہ و بازار کیوں ہوئے

وہ پوچھتے ہیں وقتِ عیادت یہ بار بار

تم میری آنکھ دیکھ کے بیمار کیوں ہوئے

دس بیس خم شراب کے خالی کیے نہ کیوں ؟

زاہد ذرا سی پی کے سیہ کار کیوں ہوئے

کیسا ستم لے کے مرا دل یہ پوچھنا

مجبور آپ کیوں ہوئے ناچار کیوں ہوئے

ظالم نے حلق پر سے اٹھا لی یہ کہہ کے تیغ

تم آپ قتل ہونے کو تیار کیوں ہوئے

وعدہ تھا مجھ سے خلوتِ عیش و نشاط کا

تم آج زیبِ محفلِ اغیار کیوں ہوئے

موسیٰ و برقِ طور کا قصہ سُنا نہیں ؟

کیا پوچھتے ہو طالبِ دیدار کیوں ہوئے

جب کچھ نہیں تمیز سیاہ و سفید میں

ہم محو عشق زلف و رُخِ یار کیوں ہوئے

جب تجھ میں شاہدِ ازلی کی نہیں ہے شان

تیرے مطیع کافر و دیندار کیوں ہوئے

ان کو یہ شوق ہے کہ بڑھائیں ستم کی مشق

ہم کو یہ رنج ہے وہ دل آزار کیوں ہوئے

عُشاق کو مزا نہیں ملتا جو عشق میں

دنیا کی لذتوں سے وہ بیزار کیوں ہوئے

انگلش زبان ہی سے جو نا آشنا ہو تم

اے فوقؔ پھر ایڈیٹرِ اخبار کیوں ہوئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]